Wednesday, December 29, 2010

javed chodahree kaa calumn

http://www.ibitians.com/2010/12/21/ghairat-ki-zaroorat-hai/

balochistan in flood naseer abad division

بلوچستان میں سیلا ب کی تباہ کاریاں
 خیبر پختونخواہ ،پنجاپ اور دسندھ سیلاب اس اس لئے متاثر ہوئے کہ دریائے سندھ ان تینوں صوبوں کے برعکس دریائے سندھ بلوچستان سے نہیں گزرتا لیکن اسکے باوجود آج بلوچستان خصوصاًضلع جعفرآ باد سیلاب کی تاریخ کی بد ترین تباہی سے دوچار ہے۔بلوچستان کے تمام جبکہ سندھ کے بعض وفاقی وزراءاور باا ثر شخصیات کی زمینوں کو بچانے کے لیے جان بوجھ کر توڑی بند میں شگاف ڈال کر دانستہ سندھ کے بعض علاقوں میں اتنی بڑی تباہی نہ آتی ۔خصوصاً سندھ حکومت اور وفاقی وزیر اعجاز جکھرانی شہباز ائیر بیس کو بچانے کے لیے سیلابی پانی کا رخ جیکب آباد سے بلو چستان کے ضلع جعفر آباد کی طرف نہ موڑ تے تو آج جعفر آباد صفحہ ہستی سے نہ مٹ جاتا سندھ سے آنے والے سیلابی رےلے نے ضلع جعفر آباد کے ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اﷲ یار سمیت اسکی چاروں تحصیلوں صحبت پور ،جھٹ پٹ اوستہ محمد اور گنداخہ کو مکمل طور پر غرق کردیا ہے ،سابق وزیر اعظم میر ظفر اﷲجمالی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری از خود نوٹس لیکر عدالتی کمیشن تسکیل دیں تو سارے حقائق سامنے آجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ توڑی بند توڑنے سے ضلع جعفر آباد کا 90فیصد علاقہ تباہ ہوگیا ہے۔بلوچستان کو ڈبونے کے توڑی بند توڑا گیا اور دونوں صوبوں کے وزراءاعلیٰ کو اس بات کا علم تھا ،انہوں نے کہا کہ اگر قائم علی شاہ نے اپنے امکانات سے ہونے والی تباہی دیکھنی ہے تو جعفر آباد کا دورہ کریں ۔ مجھے قطعاً فکر نہیں ہے۔میں اپنی عوام کی خاطر یہان موجود ہوں ،ان کی بحالی تک موجود رہوں گا ۔اسکے علاوہ سابق وزیر اعظم نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دورہ جعفر آباد و نصیر آباد کے موقع پر انہیں بتلایا کہ جیکب آباد کو بچانے کے ضلع جعفر آباد کو ڈبویا گیا عسکری قیادت نے میر ظفر اﷲ جمالی کو تحقیات کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کمانڈر سدرن کمانڈ کو ہدایات جاری کیں ۔ان کے علاوہ ڈپٹی چیئر مین میر جان محمد جمالی نے بھی ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے سندھ کے بعض وزراءکی طرف سے اپنی زمینیں بچانے کے لیے بند کاٹ کر سیلابی ریلے کا رخ بلوچستان طرف موڑنے کے حوالے سے اپنے تحطفظات سے آگاہ کیا اور مطالبہ کیا کہ اس کے ذمہ داروں کےخلاف کاروائی ہونی چاہیے اور اس معاملے کی تحقیقات کی جائے ۔صدر نے انھیں یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کو ذاتی طور دیکھیں گے دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے متضاد بیانات نے تمام معاملے کو مشکوک بنادیا ہے۔انہوں نے توڑی بند میں مصنوعی شگاف ڈالنے کے الزام کو مسترد کردیا ہے۔ تاہم قبل ازیں انہوں نے میڈیا سے بات چیت کے دوران تسلیم کیا کہ توڑی بند میں شگاف ڈالنے سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستا ن کواگاہ کردیا گیا تھا۔لیکن بلوچستان حکومت کے ترجمان کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ کے مذکورہ بیان کی سختی کیساتھ تردید کی گئی کہ بلوچستا ن حکومت کو کسی بھی قسم کی اطلاع نہیں دی گئی اگر ہم حکومت سندھ خصوصاًوزیراعلیٰ سندھ کے اس موقف کو بھی درست بھی مان لیں کہ توڑی بند میں پڑنے والا شگاف مصنوعی نہیں بلکہ قدرتی تھا تو کیا انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ توڑی بند سے جانے والا سیلابی ریلہ بلوچستان خصوصاً ضلع جعفرآباد کو بھی ہٹ کر سکتا ہے ۔حالانکہ تو ڑی بند میں شگاف کے بعد سندھ حکومت نے کند ھ کوٹ ، ٹھل ،جیکب آباد کو بچانے کے نہ صرف اپنی تمام سرکاری مشینر ی کو فعال کردیا بلکہ ان شہرون کے مکینوں کو شہر خالی کرنے کے نوٹس بھی جاری کئے گیے دوسری جانب کشمور ،کندھ کوٹ ،ٹھل ،شکارپور اور جیکب آباد کے اضلاع دیہی علاقوں سے لاکھوں افراد کی بلوچستان خصوصاً ضلع جعفر آباد نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری تھا ،بلوچستان میں تو ایسے لوگ حکمران ہیں جنکا یہ جملہ کہ "ڈگری ڈگری ہوتی ہے،چاہے اصلی ہو یا جعلی "ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔صوبے کے عوام کو ان سے کسی بھی قسم کا شکوہ ہی نہیں ہے۔کیونکہ وہ سیاسی اور عوامی کے بجائے قبائلی پش منظر رکتھے ہیں۔لیکن سندھ حکومت اس امر سے پوری طرح باخبر تھی کہ توڑی بند بلوچستان کے ضلع جعفر آبا دکو بری طرح متاثر کر ے گا ۔اگر ایسا نہیں تھا تو سندھ حکومت وزیر اعلیٰ ،وفاقی اور صوبائی وزراءاپنا کوئی ایسا بیان ریکارڈ پر کیوں نہیں لائے کہ بلوچستان بھی اس سیلابی ریلے کی زد میں آسکتا ہے انہوں نے دانستہ خاموشی اخیتار کیے رکھی کہ کہیں بلوچستان حکومت یا عوام اس پر واویلا نہ مچائے۔کیا انسانیءہمدردی اور حق ہمسائیگی کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ وہ اہل بلوچستان کو کم از کم یہ تو باور کرادیتے کہ یہ سیلابی ریلا ان کی طرف بھی رخ کرسکتا ہے۔بلوچستان کے عوام کا ان سے شکایت اس لیے بے جاہے کہ جب وہ سندھ سے بلوچستان آنے والے اپنے لاکھوں افراد کی قربانی دے سکتے ہیں تو پھر اہل بلوچستان خصوصاً ضلع جعفر آباد کے عوام کیا معنی رکھتے ہیں ۔سندھ حکومت میں شامل بعض بااثر افرادنے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر سندھ و بلوچستان کی بردار عوام کے درمیانب نفرتوں اور صوبائی تعصب کا جو بیج بویا ہے خدانخواستہ اسکے مستقبل میں انتہائی معنی خیر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ سندھ حکومت کی چشم پوشی ،سیلابی پانی کے بلوچستا ن کی جانب رخ کرنے کے حوالے سے پر اسرار خاموشی اور سرکاری سطح پر مجرمانہ غفلت اور لاپر واہی سندھ حکومت کے اس موقف کی بالکل نفی کرتے ہیں کہ توڑی بند میںپڑنے والا شگاف مصنوعی نہیں قدرتی تھا ۔ضلع جعفر آباد کے بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے بااثر وزراءنے مبینہ طور پر توڑی بند میں شگاف ڈالکر پانی کا رخ بلوچستان کی طرف موڑ دیا تھا لیکن اگر سابق وزیر اعظم میر ظفر اﷲ جمالی ڈیرہ اﷲیار شہر کے مغربی جانب واقع بائی پا س کوکٹ لگانے دیتے تو ضلع ہیڈ کوارٹر صفحہ ہستی سے نہ مٹتا اور ایک لاکھ سے زائد آبادی کو اچانک اور بے سرو سامانی کے عالم میں عجلت میں شہر نہ نکلنا پڑ تا ،سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر ظہور حسین کھوسہ سمیت ڈیرہ اﷲ یار شہر کی اکثریت اپنے بربادی کا ذمہ دار سابق وزیر اعظم کو قرار دیتی ہے۔کیونکہ انہوں نے آبائی شہر رو جہان جمالی اور زرعی زمینوں کو بچانے کےلئے ڈیرہ اﷲ یار بائی پاس پر کٹ لگانے کی اجازت نہ دی ۔حالانکہ پانی کا دباﺅ اس قدر تھا کہ ڈیرہ اﷲ یار شہر کو ڈبونے کے بعد سیلابی ریلہ تقریباًپندرہ فٹ بلند بائی پاس سے 4 فٹ کی بلندی سے کراس کرکے روجہان جمالی و دیگر علاقوں پہنچے گا ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیلابی ریلے کی آمد سے قبل ہی بائی پاس کو مختلف مقامات پر کٹ لگا دئے جاتے تو پا نی کی سطح اتنی بلند نہ ہوتی اور نہ صرف حلقوں نے میر ظفر اﷲ جمالی کے مذکورہ فیصلے پر کڑ تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے آبائی گاﺅں کو بچانے کے لیے ایک لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل ڈیرہ اﷲ یار شہر کو ڈبونا گوارہ کرلیا تاہم وہ اپنے گاﺅں کو تو نہ بچاسکے۔البتہ اپنی برسوں کی سیا سی ساکھ بھی گنوادی ۔سابق وزیر اعظم کے مذکورہ فیصلے سے نہ صرف انکی مقبولیت کا ٰخاتمہ ہوگیا ہے بلکہ متاثرہ لوگ انھیں بد دعائیں دے رہے ہیں ۔ اس تمام صور تحال مین دی سی جعفرآباد ڈاکٹر سعید جمالی کا رویہ انتہائی افسوسناک اور کارکردگی بالکل مایوس کن رہی ہے۔کیو نکہ اس وقت ان کے لئے اپنے ضلع کی "خلق خدا"کو ان کی ضرورت تھی تو اس وقت موصوف عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے ©"خانہ کعبہ © ©"کے چکر لگانے میں مصروف تھے ڈی سی جعفرآباد ڈاکٹر سعید جمالی کی غیر ذمہ داری کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ توڑی بند سے آنے والا سیلابی ریلہ شہر سے صرف 2کلومیٹر کے فاصلے پہنچ چکا تھا جبکہ موصوف اسی وقت ایک نجی ٹی وی چینل کے زریعے ڈیرہ اﷲ یار شہر کو بالکل محفوظ قرار دے رہے تھے سابق وزیر اعظم میر ظفرا ﷲ جمالی اور ڈپٹی چیئر مین سینٹ میر جان محمد جمالی جتنی چاہے سید خورشید شاہ اور میر اعجاز جکھرانی کے خلاف باتیں کریں لیکن ان کے حلقے کے عوام کو بھی ان سے شکوہ نہیں ہے کہ انہوں نے ضلع جعفر آباد سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم کے برعکس کم از کم اپنے شہروں کو تو بچالیا ہے۔
وفاقی و صوبائی حکومت دیگر شعبہ زندگی کی طرح اس اہم موقع پر بھی اپنا موئثرکردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ضلع جعفرآباد کے تقریباً 5 لاکھ جبکہ سندھ سے آئے ہوئے 9لاکھ سے زائد متا ثرین اس وقت بے یا ر ومددگار کھلے آسمان تلے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔دور افتادہ علاقوں پر مشتمل تحصیل صحبت پور اور تحصیل گنداخہ میں تاحال ہزاروں افراد سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے شہروں تک محدود رہے ۔متاثرین کی فوری امداد اور ان کی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں60سے زائد افراد جن میں اکثریت چھوٹے بچوں اور ضیعف العمر افرد کی ہے ۔ انہیں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں سیلاب متاثرین میںجلدی اور وبائی امراض پھیل چکے ہیں طبی سہولیات کے فقدان اور خوراک کی قلت کے باعث نہ صرف حاملہ خواتین بلکہ زچہ وبچہ دونوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں ۔ گذشتہ دو ہفتوں سے جعفرآباد کے ذریعے صوبہ بلوچستان کو قومی شاہراہ اور ریلوے ٹریک زیر آب آنے کی وجہ سے سندھ سمیت ملک کے دیگر حصوں سے ذمینی رابطہ منقطع ہے۔ ڈیرہ اﷲ یار کے شہریوں کے مطالبے پر صوبائی حکومت نے ڈی سی اوجعفرآباد ڈاکڑ سعید جمالی کا تبادلہ کرکے ڈیرہ اﷲ یار شہر کو ڈبونے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے ۔ ان کی جگہ ایوب جعفر کو دی سی او جعفر آباد تعنیات کیا گیا ہے۔جعفر آباد کے تمام ضلعی و تحصیل دفاتر ڈیر ہ مراد جمالی منتقل کئے گئے ہیں ۔ضلع جعفر آباد کے سیلاب متاثرین کو شکوہ ہے کہ ان کے نام پر آنے والی تمام امدادی اشیاءانتظامیہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک صوبائی وزیر کے حوالےکررہی ہے۔جو ضلع جعفر آباد کے حقیقی متاثرین کے بجائے ضلع نصیر آباد کے غیر متاثرین میں بھی یہ اشیاءتقسیم کرتے پائے گئے ہیں ۔اس حوالے سے رائس ملز مزدور یونین کے صدر خیر اﷲ ابڑو اور جنرل سیکرٹری عبدالرشید بھنگر کی زیر قیادت سینکڑوں متاثرین نے ڈیرہ مراد جمالی میںاحتجاج کیا انتظامیہ اور پولیس نے مظلوم متاثرین کی داد رسی کے بجائے ان پر لاٹھی چارج کیا اور مظاہرے کی قیادت کرنے والے خیراﷲ ابڑو اور عبدالرشید بھنگر سمیت پانچ افرادکو گرفتار ی کے بعد بھی سخت تشدد کا نشانہ بنایا ۔حتیٰ کہ انھیں طبی سہولت تک فراہم نہیں کی گئی ۔دوسری جانب جماعت اسلامی کے جانب سے الخدمت فاﺅنڈیشن کے تحت نہ صرف جعفرآباد و نصیر آباد کے اضلاع میں سیلاب متاثرین کیساتھ تعاون کا سلسلہ جاری ہے بلکہ ان اضلاع سے نقل مکانی کرکے کوئٹہ آنےوالے ہزاروں متاثرین کو طبی و غذائی امداد فراہم کی جارہی ہے۔اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی عبدالمتین اخونزادہ کی سربراہی میںبشیر احمد ماندائی،اعجاز محبوب ،ڈاکٹر محمد ابراہیم ،امان اﷲ شادیزئی ،میر محمد عاصم سنجرانی ،عبدالکبیر شاکر ،عبدالولی خان شاکر ،جمیل کرد،محمداحمد پر مشتمل صوبائی سطح پر ایک ریلیف کمیٹی قائم کی گئی ہے اس کے علاوہ فرنٹیئر کور ،سمیت دیگر سرکاری و غیر سرکاری ادارے بھی ریلیف کے کام میں مصروف عمل ہے۔ لیکن سیلاب سے ہونے والی تباہی اس قدر زیادہ ہے کہ موجودہ صورتحال میںسب سے زیادہ سیاسی ساکھ بھی پیپلز پارٹی کی متاثر ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کےحوالےسے ان کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی حاجی علی مدد جتک کی گواہی کافی ہے کہ سیلاب متاثرین کے لیے آنے والی امداد متاثرین کو ملنے کی بجائے ہڑپ کر لی جائے گی اور اس سلسلے میںوہ ماضی میںزلزلہ ذدگان کی امداد کے لیے آنے والے فنڈز اور اشیاءکی مثال پیش کرتے ہیں ۔ضلع جعفرآباد کے عوام اس بات پر بالکل متفق ہیںکہ توڑی بند میںپڑنے والے شگاف مصنوعی تھا یا قدرتی ۔لیکن ضلع جعفرآباد خصوصاً ڈیرہ اﷲ یار قدرتی آفت سے نہیں بلکہ بعض انسانوں کی بدنیتی سے تباہ ہواہے۔بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع جعفر آباد ،بولان ،بارکھان سبی ،کوہلو جھل مگسی اور نصیر آباد کو آفت ذدہ قرار دیا گیا ہے۔حکومت بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے11اضلاع میں مجموعی طور پر 5لاکھ 90ہزار متاثر ہوئے ہیں جبکہ سندھ سے بلوچستان کیجانب نقل مکانی کرکے آنے والے 6لاکھ افراد ان کے علاوہ ہیں۔بلوچستا ن کےسب سے زیادہ متاثرہ ضلع جعفرآباد میںتقریباً 48افراد ہلاک ،102 افراد زخمی او50لاپتہ ہوئے ہیں اسی طرح مجموعی طور پر بلوچستان میںحالیہ سیلاب سے 75ہزار 211مکانات کے علاوہ 6لاکھ سے زائد ایکڑ اراضی پر گھٹر فصلوں اور 305کلو میٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے بلوچستان حکومت نے سیلاب ریلیف آپریشن کی فوکل پرسن صوبائی وزیر راحیلہ درانی کو مقرر کیاہے۔جنہوں نے گزشتہ دنوں سیلاب سے ہونے والی تباہی اور امدادی کاروایﺅں کےحوالے سے پر یس بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اب تک بلوچستان میںسعودی عرب کیجانب سے پانچ C-130 طیارے اور عمان کی جانب سے 14ٹرک امدادی سامان پہنچا ہے، جنکہ ایران کیجانب سے بھی امداد کییقین دہانی کروا دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹوز سے 5کڑوڑ روپے اشیاءکی فراہمی کے علاوہ اب تک کوئی امداد نہیں دی ہے۔جبکہ صوبائی حکومت نے اب تک 22کڑوڑ روپے فراہم کیے ہیں اسکے علاہ وزیر اعلیٰ نے ہر رکن صوبائی اسمبلی کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اپنے اپنے ایم پی اے فنڈ سے ایک ایک کڑوڑ روپے خرچ کریں ،انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت بلوچستا ن صوبے کے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے بین الاقوامی ڈونر کانفرنس بلانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ اسکے علاوہ حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے 29ریلیف کیمپ قائم کئے گیے ہیں۔ جن میں۱۱ کیمپ پاک آرمی چلارہی ہے۔ فرنٹئیر کور بھی اس ضمن میں صوبائی حکومت کیساتھ بھر پور تعاون کررہی ہے گو کہ صوبائی حکومت سمیت مختلف سماجی ادارے اور این جی اوز سیلاب زدگان کی امداد کےلیے اپنی اپنی سطح پر مصروف عمل ہیں ۔لیکن ملک بھر میں خدمت کے کاموں کا سب سے وسیع نیٹ ورک رکھنے والی الخدمت فاﺅنڈیشن اکتوبر 2008کے زلزلہ متاثرین کی طرح حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے بھی میدان عمل میں موجود ہیں ۔جماعت اسلامی بلوچستان کےصوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالولی خا ن شاکر کے مطابق جماعت اسلامی کے تحت کام کرنے والی الخدمت فاﺅنڈیشن کو اﷲتعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی سب سے بڑ ی خدمت خلق کی تنظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ ہولناک بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میںجماعت اسلامی و الخدمت فاﺅنڈیشن نے فوری طور پر امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ۔جماعت اسلامی کے صوبائی امیر عبدالمتین اخونزادہ کی سربراہی میں ایک ریلیف کمیٹی قائم کی گئی ،صوبائی امیر نے صوبائی جنرل سیکرٹری بشیر احمد ماندائی،الخدمت فاﺅنڈیشن کے صوبائی صدر ڈاکٹر محمد ابراہیم کے ہمراہ کوہلو ،بارکھان ، سبی بولان ،نصیر آباد و جعفرآباد کے متاثرہ اضلاع کا دوہ کیا ،انہوں نے کہا کہ تلی سبی بولان،نصیر آباد و جعفر آباد کے متاثرہ اضلاع کا دورہ کیا انہوں نے کہا کہ تلی ،سبی ،بختیار آباد کے سیلاب متاثرین میںخیمے اور راشن تقسیم کئے گیے۔لیکن چونکہ حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع جعفرآباد ہے ۔ نہ صرف جعفرآباد بلکہ سندھ کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے لاکھوں متاثرین نصیرآباد کے ضلعی ہیڈکوارٹر ڈیرہ مراد جمالی میں مقیم ہیں اسی لیے الخدمت فاﺅنڈیشن نے الھدیٰ پبلک سکول ڈیرہ مراد جمالی کو اپنا مرکزی کیمپ قرار دیتے ہوئے الھدیٰ سکول سمیت 4مختلف مقامات پر خیمہ بستیاں قائم کردی ہیں جہاں تقریباً2000افراد کو روزانہ کی بنیاد پر غذائی اور طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔اسکے علاوہ 2500خاندانوں کی رجسٹریشن کرکے انھیں ایک ایک ہفتہ کا راشن اور پینے کا صاف پانی فراہم کیا جارہا ہے جبکہ پیما (PIMA) کے تعاون سے نہ صرف ڈیرہ مراد جمالی بلکہ کوئٹہ میں مختلف میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ جہاں تاحال 10500 افراد کا مفت چیک اپ کرکے انھیں ادویات فراہم کی گئیں ہیں ،انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی سطح پر الخدمت فاﺅنڈیشن کےصوبائی صدر ڈاکٹر محمد ابراہیم ،ضلع کوئٹہ کےصدر محمد عاصم سنجرانی امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کررہے ہیں جبکہ امیر جماعت اسلامی ضلع نصیر آباد محمد ابراہیم ابڑو کو ڈیرہ مراد جمالی میں ریلیف کمشنر مقررکیا گیا ہے اور عبدالرحیم ناصر بطور کوآرڈینیڑ ان کے ساتھ کام کررہے ہیں امیر جماعت اسلامی ضلع جعفرآباد مولانا محمد ایوب منصور ،قیم ضلع نصیرآباد خاوند بخش مینگل ،امیر شہر ڈیرہ اﷲ یار محمد یوسف منگریو ،کسان بورڈ کے صدر امیتاز ایوب ،صحبت پور کے امیر اﷲ ڈنہ منگریو کے علاوہ امیر جماعت اسلامی نوشکی عرفان ا ﷲمینگل ۔امیر جماعت اسلامی زیارت حافظ محمد حنیف کاکڑ اپنے کارکنان سمیت جبکہ ڈیرہ مراد جمالی و جعفر آباد کے40سے زائد رضاکار خدمت خلق میںمصروف عمل ہیں۔اسکے علاوہ الخدمت فاﺅنڈیشن کراچی کے رضاکاروں نے بھی امدادی کاروائیوںمیںحصہ لیا ۔عبدالولی خان شاکر کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری گئے گیے نقصانات کی جو تفصیلات منظرعام پر آرہی ہیں وہ اصل نقصانات کے مقابلے میںبے حد کم ہیںاور حکومت متاثرین کی امداد کے بلند و بانگ دعوے کررہی ہیں حالانکہ متاثرین کی اکثریت کھلے آسمان تلے کڑ کتی دھوپ میں بے یارو مددگار پڑی ہوئی ہے۔لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں ۔ اگر حکومت نے اپنے دعوﺅں کے مطابق متاثرین کی مدد نہ کی تو ملک میں حالیہ سیلاب کے بعد اخلاقی اور معاشرتی برائیوں کا ایک اور سیلاب آسکتاہے۔لہذا آج نہ صرف حکومت بلکہ معاشرے کے ہر فرد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے متاثر ہ بہن بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑے.



عبدالامتین اخونذادہ،رحیم ناصر اورپروفیسر ابراہیم ابڑومتاثرین کے ساتھ